مولانا اسرارالحق قاسمی
’’ہندوستان میں اس وقت جو ہو رہا ہے وہ تکلیف
دہ ہے۔جو ڈر کا ماحول ہے وہ تشویش میں مبتلا کرنے والا ہے۔ہم نے ہندوستان
میں ایسا ماحول پہلے کبھی نہیں دیکھا۔فرقہ وارانہ صف بندی اور عدم برداشت
کا ماحول ہم سب کے لئے تشویش کی بات ہے لیکن اس پر حکومت کی جانب سے کوئی
قدم نہ اٹھایا جانا اور بھی زیادہ تشویشناک ہے۔میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا
تھا کہ آدمی کا نام پوچھنے سے پہلے اس کا مذہب پوچھا جائے گا۔یہ انتہائی
خطرناک اور نیا رجحان ہے جس پر قابو پایا جانا نہایت ضروری ہے۔‘‘
وزیر
اعظم نریندر مودی کی سربراہی میںمرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کم و بیش
ڈیڑھ سالہ حکمرانی کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں پیش آنے والی فرقہ
وارانہ وارداتوں کے پس منظر میںمعروف نغمہ نگار اور شاعرو دانشورسمپورن
سنگھ کالرا عرف گلزار کے یہ الفاظ ملک میں موجودہ شورش،بدامنی،عدم تحمل،
اظہار رائے پر قدغن،مذہبی آزادی پر حملہ، فرقہ وارانہ سیاست،اقلیتوں میں
خوف و ہراس پیدا کرنے،مسلمانوں کومٹا دینے کے ارادوں اور ملک کے سیکولر
تانے بانے کو تباہ کرنے کی کوششوں،ملک اور معاشرہ کو مذہب،ذات پات اور
علاقہ کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی منشاکی پورے طور پر تصویر کشی کرتے
ہیں۔جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے بھی کچھ اسی قسم کی
رائے ظاہر کی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ’’ آج
مسلمانوں میں عمومی طور پر یہ احساس پایا جا رہا ہے کہ اب وہ اس ملک میں
محفوظ نہیں ہیں،جارح قوتیں ملک کو توڑنے کامجرمانہ منصوبہ بنا رہی ہیں، وہ
عدم تحمل کی تمام حدیں توڑتے ہوئے ایسی وارداتیں انجام دے رہی ہیں جن سے
ملک کی یکجہتی اور اتحاد کے لئے خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور موجودہ حکومت انکے
خدشات کو دور کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں کر رہی ہے۔ ‘‘
ملک کے موجودہ
حالات پر اس بے باکی سے اظہار خیال کرنے والی مذکورہ دونوں شخصیات تنہا
نہیں ہیںبلکہ تمام سیکولر و محب وطن شہری جن میں سیاسی و سماجی لیڈران،
قلمکار،ادیب اور دانشور شامل ہیں،جو ملک میں عدم رواداری کی بڑھتی ہوئی
لعنت، فرقہ پرست اور سماج دشمن عناصر کی انارکی ا ور حکومت وقت کی بے حسی
یا دوسرے لفظوں میں کہیں تو خاموش حوصلہ افزائی کے خلاف سراپا احتجاج بنے
ہوئے ہیںاور اپنی تحریر و تقریر سے، حکومتی اعزازات واپس کر کے اور یہاں تک
کہ سڑکوں پر نکل کر حکومت سے حالات کو کنٹرول کرنے اور ملک کے سیکولر اور
تکثیری تانے بانے کی حفاظت کر نے اور برقرار رکھنے کا پُر زور مطالبہ کر
رہے ہیں۔ ملک کے حالات کی گونج اب صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا
میں سنائی دے رہی ہے۔ حتیٰ کہ 12 نومبر سے شروع ہونے والے انگلینڈ کے سہ
روزہ دورے کے دوران بھی وزیر اعظم مودی کو ہندوستان کی داخلی بدامنی
پربرطانوی اور وہاںآباد ہندوستانی شہریوں کا احتجاج جھیلنا ہوگا۔وزیر اعظم
مودی برطانیہ میں اپنے قیام کے دوران وہاں کی شہرہ آفاق دانش گاہ کیمبرج
یونیورسٹی بھی جائیں گے۔لیکن میڈیا کے توسط سے جو اطلاعات مل رہی ہیں وہ یہ
ہیں کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلرپراساتذہ اور طلبہ اور سابق طلبہ دبائو
ڈال رہے ہیں کہ و ہ یونیورسٹی میں مودی کا مجوزہ خطاب منسوخ کردیں۔اطلاعات
کے مطابق کیمبرج یونیورسٹی کے اسکالروں اور طلبہ نے وائس چانسلر کو مودی کا
خطاب منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے جو مراسلہ لکھا ہے اس میں نہ صرف
مبینہ طور پر گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں ہندو جنونیوں کے ہاتھوں
دادری میں محمد اخلاق
نام کے ایک مسلم شخص کی ہلاکت اور عدم تحمل کے دیگر
حالیہ واقعات اور تنازعات کا حوالہ دیا گیا ہے بلکہ 2002 میں گجرات میں
ہونے والے مسلم مخالف فسادات میں مودی کے کردار کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے جب
وہ وہاں کے وزیر اعلیٰ تھے۔ مراسلہ میں مزید لکھا گیا ہے کہ اس عظیم دانش
گاہ میں مودی کا خطاب نہیں ہونا چاہئے خاص کر ایسے موقع پر جب ہندوستان کے
متعدد سرکردہ ادیب اور دانشور مودی حکومت کے تحت شہری آزادی اوراظہار رائے
کی آزادی پر جاری حملوں کے خلاف اپنے سرکاری ایوارڈس لوٹا رہے ہیں۔
آئینی ضمانت کے باوجود شہری حقوق تلف کئے جا رہے ہیں،لوگوں کی آزادی
چھینی جا رہی ہے۔چنانچہ اس تعلیمی ادارے میں مودی کی موجودگی ادارے کے لئے
باعث ذلت و رسوائی و بدنامی ہوگی اور یہ سمجھا جائے گا کہ یونیورسٹی شہری
آزادی کو کچلنے والوں کی حمایت کر رہی ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ
امریکہ نے گجرات فسادات کے تین سال بعد 2005میںجب مودی نیو یارک شہر کے
مڈیسن اسکوائر گارڈن میں ہندوستانی امریکیوں کی ایک ریلی سے خطاب کرنے کے
لئے امریکہ جانے کی تیاری کر رہے تھے تب وہاں کے حکام نے مسلمانوں کے خلاف
ہندو فرقہ کے فسادات کو روکنے میںبحیثیت وزیر اعلیٰ گجرات ناکام رہنے کی
بنیاد پرویزا دینے سے انکار کر دیا تھااوریہ پابندی بارہ برس تک برقرار
رہی۔البتہ اس وقت منسوخ کی گئی جب وہ ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔مودی کے
مجوزہ برطانیہ دورے کے دوران کیمبرج یونیورسٹی کے اسکالروں اور طلبہ کی
جانب سے مودی کے خلاف احتجاج کی جو آواز یں اٹھی ہیںجن میں گجرات فسادات
میں انکے رول کا ذکر موجود ہے اور ان کے وزیر اعظم رہتے ہوئے ملک میں
اقلیتوں کے حقوق سلب کرنے سے لیکر اظہار رائے کی آزادی پر حملے کی بات کہی
گئی ہے اور دانش گاہ میں انکی آمد کو ادارے کی ذلت و رسوائی سے تعبیر کیا
گیا ہے،اس کی روشنی میںوزیر اعظم مودی اور انکے طرفداروں کو نوشتۂ دیوار
پڑھ لینا چاہئے اور اس سے پہلے کہ وقت گزر جائے ایسے تمام لوگوں کے خلاف
سخت کارروائی کی جانی چاہئے جو ملک اور معاشرہ کا تانا بانا منتشر کرنے کی
ناپاک کوشش کر ہے ہیں۔ اور صرف یہی نہیں،وزیر اعظم مودی کو خود ملک کے تمام
طبقات خاص کر اقلیتوں اور کمزوروں کو انکے آئینی حقوق کی حفاظت کا یقین
دلانا ہوگا تاکہ ان کے دلوں میںبی جے پی اور اسکی ہمنوا جماعتوں کی
کارستانیوں کی وجہ سے جو خوف جاگزیں ہو گیا ہے وہ کم ہو سکے۔لیکن سب سے اہم
اور بڑا سوال یہ ہے کہ جس کا اپنا دامن ہی سب سے زیادہ داغدار ہو،وہ اپنے
ماتحتوں کو پاکدامنی کی نصیحت کیسے کر سکتا ہے؟ وزیر اعظم مودی نے گجرات
فسادات میں مسلمانوں کے قتل عام سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ
اگر کوئی پلہ بھی گاڑی کے نیچے آجائے تو افسوس ہوتا ہے۔ اب انکے ایک وزیر
نے دلتوں کا موازنہ کتے سے کیا ہے۔ مودی ان وزیر موصوف کو کیسے سمجھا سکتے
ہیں کہ یہ موازنہ غلط ہے ۔وزیر اعظم کی ایما پر امیت شاہ کے ذریعہ پارٹی کے
چند ماحول بگاڑنے والے لیڈروں کو ڈانٹ پھٹکار کی خبر کی بھی تصدیق نہیں ہو
سکی ہے۔ وزیر اعظم نے شیو سینا کی غنڈہ گردی کے خلاف جو ہلکی سی لب کشائی
کی اسکے ردعمل میں شیو سینا کے لیڈر سنجے راوت نے گجرات فسادات کے حوالے سے
مودی کی ایسی خبر لی کہ مودی تو مودی ،پوری پارٹی کی بولتی ہی بند ہو گئی۔
لہٰذا وزیر اعظم ملک کے داخلی حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے کسی کے خلاف
کوئی کارروائی کریں گے، اس کا امکان فی الحال تومعدوم ہی ہے۔
(مضمون نگار ممبرپارلیمنٹ اورآل انڈیاتعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے صدرہیں)